نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔

عافیہ صدیقی کی تصویر


امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔

نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔

عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ یکم اپریل 2003 کو لاپتہ ہوئیں۔ اس سلسلے میں محترمہ یوان ریڈلی (Yvonne Ridley) سے بھی سوالات ہونے چاہئیں۔

عافیہ صدیقی 2008 میں گرفتار ہوئیں، جب مشرف کی حکومت ختم ہو چکی تھی۔ اس بات کی تصدیق اُن کے ماموں شمس الدین، معروف عالم دین مفتی ابو لبابہ شاہ منصور، اور مفتی رفیع عثمانی نے کی ہے، جن سے وہ اس دوران رابطے میں رہیں۔ مبینہ طور پر، انہوں نے القاعدہ کے لیے حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی کوشش بھی کی تھی۔

22 مئی 2009 کو "روزنامہ اُمت" میں اُن کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد کا ایک تفصیلی اور چشم کشا انٹرویو شائع ہوا، جس میں اُنہوں نے دوبارہ کہا کہ عافیہ صدیقی نے اپنی روپوشی کا ڈرامہ خود رچایا۔ ڈاکٹر امجد کے مطابق، عافیہ ایک جنونی خاتون تھیں اور اُنہوں نے القاعدہ کے خالد شیخ گروپ سے تعلقات قائم کیے۔ وہ بلٹ پروف جیکٹس اور C4 دھماکہ خیز مواد کے مینولز تک خرید چکی تھیں، اور بعض امریکی ایجنسیوں نے اُن سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔

بعد ازاں، وہ پاکستان واپس آئیں اور ڈاکٹر امجد کو افغانستان میں جہاد پر چلنے کے لیے کہا۔ انکار پر طلاق کا مطالبہ کیا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ نہ مانیں۔ طلاق کے بعد عافیہ نے بچوں کو باپ سے نہ ملنے دیا۔

2003 میں، عافیہ نے القاعدہ کے رہنما خالد شیخ محمد کے بھانجے عمار بلوچی سے دوسری شادی کر لی۔ اسی سال، جب خالد شیخ گرفتار ہوا تو اس کے قبضے سے ملنے والی دستاویزات میں ڈاکٹر عافیہ کا ذکر بھی موجود تھا۔ اُن کی بہن نے ایک عدالتی کارروائی میں اس شادی کی تصدیق کی۔ خالد شیخ کی گرفتاری کے بعد عافیہ روپوش ہو گئیں۔ اس دوران ڈاکٹر امجد بچوں سے ملاقات کے لیے قانونی کارروائی کر رہے تھے۔ عافیہ کی جانب سے یہ جواز دیا گیا کہ ایجنسیوں نے بچوں سمیت انہیں اغوا کر لیا ہے۔

یوں وہ نہ صرف ڈاکٹر امجد بلکہ اُن کے خاندان کے سوالات سے بھی بچ گئیں۔ اس دوران ڈاکٹر امجد نے دو گواہوں کو عدالت میں پیش کیا جنہوں نے اُنہیں بعد ازاں کراچی میں دیکھا تھا۔

عافیہ کے بارے میں سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ 2008 میں وہ اپنے ماموں شمس الدین واجد کے گھر نمودار ہوئیں۔ اخبار میں شائع شمس الدین صاحب کے بیان کے مطابق، عافیہ تین دن اُن کے گھر رہیں۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ عافیہ کی ناک پر سرجری ہوئی ہے، ممکن ہے وہ اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہوں۔

اس کے بعد عافیہ نے اپنے ماموں سے ضد کی کہ وہ اُنہیں طالبان کے پاس افغانستان بھیج دیں کیونکہ وہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتی تھیں۔ انکار پر، تیسرے دن وہ اچانک غائب ہو گئیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خود افغانستان چلی گئیں، جہاں افغان فورسز نے انہیں گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔ یہی مؤقف افغان حکومت اور امریکہ دونوں کا ہے۔

مزید تفصیلات اس مضمون کو طویل کر سکتی ہیں، جیسے کہ وہ کس طرح نام اور شناخت بدل کر زندگی گزارتی رہیں۔ مگر افسوس اُن لوگوں پر ہے جو ان تمام حقائق کے باوجود پرویز مشرف پر "قوم کی بیٹی بیچنے" کا الزام لگاتے ہیں، حالانکہ اُن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

درحقیقت، عافیہ اُن بے شمار افراد میں سے ایک تھیں جو جذبات میں آ کر غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں اور ایک حد کے بعد صحیح و غلط کا فرق بھول جاتے ہیں۔ وہ پاکستان سے اسی طرح کی نفرت کرنے لگی تھیں جیسی تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ کے شدت پسند کرتے ہیں۔ کراچی میں نیول بیس پر القاعدہ کے جس سیل نے حملہ کیا تھا یہ اسکا حصہ تھیں۔

آج وہ اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ ہم بس یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات آسان فرمائے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...