جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا:
"اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!"
ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ :
"بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟"
اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا:
"عہدہ کیا ملے گا؟"
جواب ملا:
"تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔"
اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا:
"ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟"
جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان کے اس مایہ ناز شاگرد نے بالکل اسی کے انداز میں اداکاری کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کی اور روتے ہوئے کہا:
"فردوس شمیم کا کراچی سے فون آیا ورنہ میں تو بالکل نہیں مان رہا تھا!"
اب عرفان سلیم کے ساتھی انتظار کریں کہ وہ کب سپیشل اسسٹنٹ بنتا ہے۔ اُس نے منہ پھاڑ کر ایک ارب کی رشوت مانگی تھی۔ اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ مرزا آفریدی کتنے پر راضی ہوا ہے۔
بہرحال، جتنے بھی پیسے ملے ہوں، اس میں سے کم از کم اپنے اُن ساتھیوں کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دے جنہوں نے اس سارے معاملے میں اس کے ساتھ مل کر نعرے لگائے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ آخر کار عرفان سلیم کو پی ٹی آئی کے لیے اتنے سال تک پرتشدد مظاہرے کرنے، کور کمانڈر کا گھر جلانے اور پولیس کی بکتربند گاڑیوں پر قبضہ کرنے جیسی تمام کارروائیوں کا معاؤضہ آج مل گیا ہے۔ یہ معاوضہ مناسب ہے یا کم — یہ تو وقت بتائے گا۔ باقی اب انتظار کریں عرفان سلیم کے سپیشل اسسٹنٹ بننے کا اور جائدادیں خریدنے کا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں