۔ جب عمران خان کو خیبرپختونخوا سے سینیٹ کی 9 نشستیں آسانی سے مل سکتی تھیں، تو انہوں نے الیکشن لڑنے کے بجائے حکومت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیوں کر لی؟ اور سینیٹ کی تین نشستیں حکومت کے لیے کیوں چھوڑ دیں؟
صوبہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے پاس 92 ایم پی ایز ہیں، جب کہ سینیٹ کی کل 11 نشستیں ہوتی ہیں۔ ان میں 7 جنرل نشستیں، 2 ٹیکنوکریٹ کی اور 2 خواتین کی ہوتی ہیں۔ ایک جنرل نشست جیتنے کے لیے تقریباً 17 سے 18 ایم پی ایز کے ووٹ درکار ہوتے ہیں، جب کہ ایک ٹیکنوکریٹ یا خواتین کی نشست کے لیے تقریباً 30 ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس 92 نشستیں موجود ہیں۔ اگر سینیٹ کا باقاعدہ انتخاب ہوتا تو جنرل نشستوں میں سے کم از کم 5 آرام سے پی ٹی آئی کو مل سکتی تھیں اور تھوڑی کوشش سے ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی چاروں نشستیں بھی حاصل کی جا سکتی تھیں۔ یوں پی ٹی آئی سینیٹ کی 11 میں سے 9 نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں تھی۔
تو پھر ایسی کیا وجہ پیش آئی کہ عمران خان نے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کے بجائے حکومت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی اور صرف 6 نشستیں لینے پر رضامند ہو گئے؟ ان 6 میں سے بھی 2 سینیٹرز ایسے ہیں جنہیں پی ٹی آئی کا اوورسیز سوشل میڈیا "اسٹیبلشمنٹ" کے نمائندے قرار دے رہا ہے۔
یا تو عمران خان کو اپنے ایم پی ایز پر اعتماد نہیں رہا، اور انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ایم پی ایز دوبارہ بک چکے ہیں، جس کے نتیجے میں کہیں یہ 6 نشستیں بھی نہ ہاتھ سے چلی جائیں۔ یا پھر وہ بات درست ہے جو عمران ریاض اور اے آر وائی کے صحافی نعیم اشرف بٹ نے کہی کہ سینیٹ کی نشستوں کے بدلے عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے بھاری رقوم وصول کر لی ہیں۔ شاید اسی لیے عرفان سلیم، خرم ذیشان اور عائشہ بانو جیسے دیرینہ کارکنوں کو پہلے ٹکٹ دیے گئے اور اب واپس مانگے جارہے ہیں، حالانکہ وہ اپنے کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کروا چکے تھے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان اس حکومت کو چور اور فارم 47 والی حکومت کہتا ہے۔ چند دن پہلے حکومت کے ساتھ ہر قسم کے مزاکرات بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ پھر اگلے ہی دن انہی چوروں اور اسی فارم 47 والی حکومت کے ساتھ مزاکرات بھی کیے اور انکے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے انکو سینیٹ کی 3 اضافی نشتیں بھی دے دیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں