نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کا دعوی

 پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔  چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔  آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔  افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...

باجوڑ خارجیوں کو بچانے کی کوشش

جون کے آخر میں باجوڑ میں سینکڑوں کی تعداد میں خارجی جمع ہوگئے اور اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کیں۔ ان ویڈیوز میں انہوں نے علاقے کو "مرتد فوج" سے خالی کرانے کے عزائم ظاہر کیے۔ ایک ہفتے بعد اسسٹنٹ کمشنر کو پانچ دیگر افراد کے ساتھ شہید کر دیا۔ سرکاری حکام اور پولیس کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

چند روز بعد انہی خارجیوں نے اے این پی کے مولانا خانزیب کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ پھر اس قتل کا الزام سیکیورٹی فورسز پر لگا کر پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر فورسز کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کیا۔ اس پروپیگنڈے میں بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بھی حصہ لیا۔ مولانا خانزیب، پی ٹی آئی کی باجوڑ میں بڑھتی عدم مقبولیت کے لیے خطرہ بن گئے تھے اور وہ خارجیوں کے بھی خلاف تھے۔

جب خارجی باجوڑ میں یہ سب کچھ کر رہے تھے تو باجوڑ کی پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو سانپ سونگھا ہوا تھا۔ لیکن جوں ہی ریاست نے فیصلہ کیا کہ ان خارجیوں کو باجوڑ سے نکال باہر کیا جائے اور فورسز کو باجوڑ کی طرف روانہ کیا گیا۔ تو پی ٹی آئی جیسے اچھل پڑی۔ پی ٹی آئی کے مقامی راہنما نجیب اللہ مومند نے فوج کے خلاف مقامی لوگوں کو پی ٹی آئی کارکنوں کے ساتھ مل کر اکسانا شروع کر دیا کہ کسی صورت فوج کو باجوڑ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اس مہم میں ان کا ساتھ پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے گل ظفر نے دیا۔

فوج نے عوام سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی اور کرفیو نافذ کر دیا۔ تاکہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ دہشتگردوں کو پناہ نہ دی جائے۔ اس کے ردعمل میں گل ظفر اور نجیب اللہ نے پی ٹی آئی کارکنوں کا ایک گروہ تیار کیا، جو کرفیو توڑ کر باہر نکل آیا اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز پوسٹ کیں کہ "ہم نے کرفیو توڑ دیا ہے عوام بھی فوج کے خلاف نکل آئے۔"

اس کے باوجود فوج نے دہشتگردوں کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائیاں شروع کردیں۔ تب پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر پرانی اور جھوٹی تصاویر و ویڈیوز شیئر کرکے شور مچانا شروع کر دیا کہ فوج نے عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔ دہشتگرد گھروں میں زبردستی گھسنے لگے اور مزاحمت پر لوگوں کو گولیاں مارنے لگے جس کا الزام بھی پی ٹی آئی نے فوج پر ڈالنے لگی۔

پی ٹی آئی کے ایک بڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹ 'ہرمیت سنگھ' نے افغانستان اور پشاور میں ذاتی دشمنی کے نتیجے میں چند سال قبل مارے گئے بچوں کی تصاویر شیئر کر کے دعویٰ کیا کہ فوج نے باجوڑ میں بچوں کو قتل کیا ہے۔ 

پی ٹی ایم کے سہیل نور نے 2019 کی عراق کی ویڈیوز شیئر کر کے لکھا کہ دیکھیں باجوڑ میں کیسا خوفناک آپریشن ہو رہا ہے۔ جبکہ کسی معروف ملکی یا غیر ملکی نیوز ایجنسی نے باجوڑ میں فوج کے ہاتھوں کسی بھی شہری کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی۔

آپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے راہنماؤں نے خارجیوں کے بجائے فوج کو ہی دہشتگرد کہنا شروع کر دیا۔ شاندانہ گلزار نے ٹویٹ کی کہ باوردی خارجی نہتے پشتونوں کو ڈالروں کے لالچ میں مارنے پہنچے ہیں۔ گل ظفر نے ہاتھ میں قرآن اٹھا کر تیراہ والوں کی نقل کرتے ہوئے کہا، "ہم دونوں عسکریت پسندوں سے امن مانگتے ہیں"۔ یعنی فوج کو بھی عسکریت پسند قرار دے دیا، جو دراصل باجوڑ کو بچانے پہنچی ہے۔ یاد رہے یہی گل ظفر اپنے پی ٹی آئی حریف کو قتل کر چکا ہے۔

پی ٹی آئی کی خارجیوں کو بچانے کی بھرپور کوششوں کے باوجود، اب تک کی کارروائی میں 17 خارجی ہلاک اور 24 زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 4 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ خارجیوں نے پریس ریلیز جاری کرکے باجوڑ کی عوام سے فوج کے خلاف مدد مانگی ہے اور اب تک مقامی سطح پر صرف پی ٹی آئی ہی ان کی مدد کرتی نظر آ رہی ہے، چاہے وہ زمینی سطح پر ہو یا سوشل میڈیا پر۔ بلکہ باجوڑ کے جن لوگوں نے مساجد میں اعلانات کیے کہ خارجیوں کو پناہ نہ دی جائے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ان پر بھی لعنت ملامت کر رہی ہے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...