فقیر ایپی یا مرزا علی خان خیبرپختونخوا میں افغانستان اور انڈیا کی پاکستان کے خلاف پہلی مشترکہ پراکسی تھی، جسے وزیرستان میں لانچ کیا گیا۔ اس نے اسلام کے نام پر لوگوں کا قتلِ عام کیا اور پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگایا۔ اس کو افغانستان کے علاوہ روس سے بھی مدد مل رہی تھی۔
برطانیہ کے خلاف فقیر ایپی نے پہلی لڑائی اس وقت لڑی جب اس کے روابط اٹلی اور جرمنی سے استوار ہوئے۔ اگرچہ جرمنی بازی لے گیا تھا، لیکن ایک اطالوی انٹیلیجنس افسر نے بھی وزیرستان میں فقیر ایپی سے ملاقات کی۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ابتدا میں فقیر ایپی کو بارہ ہزار پاؤنڈ کی پیشکش کی گئی، لیکن اس نے یہ رقم امریکی ڈالرز یا سونے کی صورت میں طلب کی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک جرمن ساختہ ریڈیو ٹرانسمیٹر اور اسے آپریٹ کرنے والا ماہر اپنے مرکز میں رکھ لیا، جو اس کے ساتھیوں کو ریڈیو چلانے کی تربیت دیتا رہا۔
جرمنی نے فقیر ایپی کا کوڈ نام "Feuerfresser" یعنی "آگ کھانے والا" رکھا۔
1937ء میں ڈیلی ہیرالڈ نامی اخبار نے لکھا کہ وزیرستان میں برطانیہ کے خلاف پشت پناہی مسولینی کر رہا ہے۔ فقیر ایپی نے پیشکش کی تھی کہ اگر اسے 25 ہزار پاؤنڈ دیے جائیں تو وہ برطانیہ کے خلاف بغاوت کو فاٹا کے دیگر علاقوں تک پھیلا سکتا ہے۔
یہ ساری معلومات آپ کو ان کتب میں مل جائیں گی:
-
Historical Dictionary of German Intelligence — Jefferson Adams
-
The Wars of Afghanistan: Messianic Terrorism, Tribal Conflicts — Peter Tomsen
پاکستان بننے کے بعد وہی کردار جو پہلے فقیر ایپی سے اٹلی اور جرمنی نے لیا تھا، اب بھارت اور افغانستان نے لینا شروع کر دیا۔ فقیر ایپی نے پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست اور برطانوی راج کا تسلسل قرار دے کر اس کے خلاف جنگ شروع کی، اور پھر "پشتونستان" کا نعرہ بلند کر دیا۔
فقیر ایپی نے چُن چُن کر پاکستان کے حامیوں اور مشران کو قتل کیا۔ اس کی کارروائیاں کوہاٹ تک پھیل چکی تھیں۔ افغانستان نے فقیر ایپی کی خودساختہ ریاست کو تسلیم کر لیا تھا اور وہاں سے اسے مسلسل امداد بھی ملتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کی ریاست کا دفتری عملہ بھی افغانستان ہی نے بھیجا تھا۔ افغانستان اور بھارت میں پشتونستان کے موضوع پر باقاعدہ تقاریب کا انعقاد ہوتا تھا۔
اسی دوران افغانستان نے پاکستان کی سرحدوں پر کئی حملے کیے، لیکن ہر بار پاک فوج کے ہاتھوں شکست کھائی۔ رفتہ رفتہ فقیر ایپی کی تحریک بھی دم توڑنے لگی۔ اس کے نائب کمانڈر نے سرنڈر کر دیا۔ افغانی مسلسل فقیر ایپی سے دروغ گوئی کرتے رہے اور کبھی کوئی وعدہ پورا نہ کیا۔ بلکہ انڈیا سے ملنے والے فنڈز میں سے بھی کچھ خود رکھ لیتے تھے۔
بالآخر فقیر ایپی افغانوں کی دغابازی، مسلسل جھوٹ اور پروپیگنڈے سے تنگ آ گیا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ صرف استعمال ہوتا رہا اور اس نے بےگناہوں کا خون بہایا۔ پھر اس نے نہ صرف تحریک سے علیحدگی اختیار کی بلکہ ایک لشکر بنا کر خود انہی شرپسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔
فقیر ایپی نے دوسلی کے مقام پر ایک بڑے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"بھائیو!
افغان حکومت نے اب تک مجھے سخت دھوکے میں رکھا۔ اسلام کے نام پر مجھے بڑا فریب دیا۔ آئندہ اگر افغانستان میرے نام پر کسی قسم کا منصوبہ بنائے تو آپ نے ہرگز اس کا ساتھ نہیں دینا۔"
پاکستان نے فقیر ایپی کو عزت دی۔ اسے اپنی تاریخ میں جنگِ آزادی کا ہیرو لکھا۔ کئی سڑکیں اس کے نام سے منسوب کی گئیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے موجودہ کمانڈر حافظ گل بہادر، فقیر ایپی کا پوتا ہے—اور وہی سب کچھ کر رہا ہے جو اس کے دادا نے کیا تھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں