نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کا دعوی

 پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔  چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔  آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔  افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...

انڈین بحری بیڑے کا پوسٹ مارٹم

 انڈیا کے پاس ایک بحری بیڑہ موجود ہے جس کا نام وکرانت (INS Vikrant) ہے۔ پاکستان کے پاس اس نوعیت کا کوئی طیارہ بردار بحری جہاز نہیں، جس کی وجہ سے بھارتی عوام اور میڈیا میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کو بحری طاقت کے میدان میں پاکستان پر برتری حاصل ہے۔ لیکن آئیں انکی یہ غلط فہمی دور کرتے ہیں۔

بحری بیڑہ دراصل ایک طیارہ بردار بحری جہاز ہوتا ہے اور اس کی اصل طاقت ان لڑاکا طیاروں میں ہوتی ہے جو اس پر لدے ہوتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت یعنی امریکہ کے بحری بیڑے اسی لیے مؤثر ہیں کہ ان پر جدید ترین لڑاکا طیارے تعینات کیے جاتے ہیں جو کسی بھی خطے میں جا کر امریکہ کو فضائی اور بحری برتری دلا دیتے ہیں۔

اب آتے ہیں بھارت کے وکرانت ( INS Vikrant)  پر جو 2022 میں سروس میں آیا۔ یہ بحری بیڑہ بھارت نے خود تیار کیا ہے جس کی تیاری پر تقریباً 2.5 بلین ڈالر (تقریباً 750 ارب بھارتی روپے) لاگت آئی ہے۔ اس کے سالانہ آپریشنل اخراجات تقریباً 1000 کروڑ بھارتی روپے (یعنی 120 ملین ڈالر) کے قریب ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وکرانت پر صرف مگ 29 جیسے پرانے طیارے ہی تعینات کیے جا سکتے ہیں، جن کی تعداد بھی زیادہ سے زیادہ 10 سے 12 ہوتی ہے۔ رافیل جیسے جدید طیارے اس پر نہیں اتارے جا سکتے۔ مزید یہ کہ مگ 29 کی کارکردگی اور قابلِ اعتماد ہونے پر خود بھارت میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ سیخوئی 30 بھی اتارے جاسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کو سیخوئی اور مگ گرانے میں خصوصی مہارت حاصل ہے۔ بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ مگ طیارے پاکستان کی سرحد کے قریب آکر خودبخود گر جاتے ہیں۔ مگ پر ہی بیٹھ کر ابھی نندن  بھی پاکستان کی سیر کو آیا تھا۔

لہٰذا جب مئی کی جنگ کا آغاز ہوا تو آپ نے خبر سنی ہوگی کہ سب سے پہلے بھارت نے  وکرانت کو فوری طور پر پاکستان سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر لے گیا تھا تاکہ پاکستان اسکو نہ ڈبو دے۔ اگر یہ واقعی کوئی مؤثر جنگی ہتھیار ہوتا تو اسے پاکستان کے قریب لا کر استعمال کیا جاتا بجائے دور بھگانے کے۔ 

سچ یہ ہے کہ "وکرانت" صرف ایک نمائشی جہاز ہے جس کا مقصد بھارتی عوام کو خوش رکھنا اور میڈیا میں دکھاوا کرنا ہے۔ عملی طور پر یہ بحری بیڑہ نہ پاکستان کے خلاف کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہے نہ چین کے خلاف۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...