نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

جمشید دستی کی جعلی ڈگریاں

۔ 1998ء سے پہلے جمشید دستی ایم اے اسلامیات تھا۔ اس پر جعلی ڈگریوں کا کیس بنا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ یورنیوسٹیاں اور بورڈ اس کی ڈگریاں جعلی قرار دے چکے تھے۔ پھر بھی سپریم کورٹ نے احتیاطً اس سے صرف یہ سوال کیا کہ قرآن کی پہلی دو صورتیں کون سی ہیں؟ 

ایم اے اسلامیات جمشید دستی کو نہیں تھا علم کہ قرآن کی پہلی دو صورتیں کون سی ہیں۔ لہذا سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اسکو نااہل قرار دے دیا۔ 

اس پر اس نے 2002ء میں ڈیرہ غازی خان سے دوبارہ میٹرک کر لیا۔ لیکن وہ میٹرک سرٹیفکیٹ بھی جعلی ثابت ہوا۔ تین سال بعد، انٹرمیڈیٹ کا سرٹیفکیٹ بھی ڈیرہ غازی خان کے تعلیمی بورڈ نے جعلی قرار دیا۔

2008ء میں، جمشید دستی نے شہادت العالیہ (گریجویشن کے مساوی مذہبی ڈگری) حاصل کی۔ اسی پر الیکشن لڑا لیکن وہ ڈگری بھی چینلج ہوئی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں وہ ایک بھی سوال کا جواب نہیں دے سکے اور ڈگری جعلی قرار پائی۔

اکتوبر 2019 میں بہاولپور یونیورسٹی سے دوبارہ ایف اے بی اے کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یاد رہے کہ 1998ء میں یہ ایم اے کر چکا تھا۔ 

جمشید دستی نے ہمت نہیں ہاری اور دوبارہ اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور ایف اے اور بی اے کی اسناد حاصل کیں۔ اسی پر 2024 کا الیکشن بھی لڑا اور جیت بھی گئے۔ لیکن وہ ڈگریاں بھی چینلج ہوگئیں اور جعلی ثابت ہوئیں جس پر آخر کار الیکشن کمشین نے تنگ آکر انکو نااہل قرار دے دیا۔ اس پر بھی ہماری بےمثل لاہور ھائی کورٹ نے انکو سٹے دے دیا ہے۔ یہ شکر ہے کہ بحال نہیں کر دیا۔

اس پر جمشید دستی کا رونا سنا ہوگا آپ نے کہ میں خان کا سپاہی ہوں اور خان سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے اور میں ڈٹ کے کھڑا رہونگا۔ اس پر بہت سے پی ٹی آئی اکاؤنٹس اسکو خراج تحسین بھی پیش کر رہے ہیں۔ مجال ہے جو کسی نے اسکو شرم دلانے کی کوشش کی ہو۔ 

اب آپ کہیں گے کہ اگر جمشید دستی اتنا بڑا فراڈیا ہے تو عمران خان نے اسکو کیوں چنا؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جمشید دستی فراڈیا ہونے کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ کا ماہر اور اعلی درجے کا ڈرامے باز بھی ہے۔ نیز اس نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ پوری قیمت دے کر خریدا تھا۔ پیسہ، گالم گلوچ اور ڈراما یہ تینوں چیزیں عمران خان کو ہر وقت چاہیے ہوتی ہیں۔ 





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...