۔ 1998ء سے پہلے جمشید دستی ایم اے اسلامیات تھا۔ اس پر جعلی ڈگریوں کا کیس بنا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ یورنیوسٹیاں اور بورڈ اس کی ڈگریاں جعلی قرار دے چکے تھے۔ پھر بھی سپریم کورٹ نے احتیاطً اس سے صرف یہ سوال کیا کہ قرآن کی پہلی دو صورتیں کون سی ہیں؟
ایم اے اسلامیات جمشید دستی کو نہیں تھا علم کہ قرآن کی پہلی دو صورتیں کون سی ہیں۔ لہذا سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اسکو نااہل قرار دے دیا۔
اس پر اس نے 2002ء میں ڈیرہ غازی خان سے دوبارہ میٹرک کر لیا۔ لیکن وہ میٹرک سرٹیفکیٹ بھی جعلی ثابت ہوا۔ تین سال بعد، انٹرمیڈیٹ کا سرٹیفکیٹ بھی ڈیرہ غازی خان کے تعلیمی بورڈ نے جعلی قرار دیا۔
2008ء میں، جمشید دستی نے شہادت العالیہ (گریجویشن کے مساوی مذہبی ڈگری) حاصل کی۔ اسی پر الیکشن لڑا لیکن وہ ڈگری بھی چینلج ہوئی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں وہ ایک بھی سوال کا جواب نہیں دے سکے اور ڈگری جعلی قرار پائی۔
اکتوبر 2019 میں بہاولپور یونیورسٹی سے دوبارہ ایف اے بی اے کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یاد رہے کہ 1998ء میں یہ ایم اے کر چکا تھا۔
جمشید دستی نے ہمت نہیں ہاری اور دوبارہ اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور ایف اے اور بی اے کی اسناد حاصل کیں۔ اسی پر 2024 کا الیکشن بھی لڑا اور جیت بھی گئے۔ لیکن وہ ڈگریاں بھی چینلج ہوگئیں اور جعلی ثابت ہوئیں جس پر آخر کار الیکشن کمشین نے تنگ آکر انکو نااہل قرار دے دیا۔ اس پر بھی ہماری بےمثل لاہور ھائی کورٹ نے انکو سٹے دے دیا ہے۔ یہ شکر ہے کہ بحال نہیں کر دیا۔
اس پر جمشید دستی کا رونا سنا ہوگا آپ نے کہ میں خان کا سپاہی ہوں اور خان سے وفاداری کی سزا مل رہی ہے اور میں ڈٹ کے کھڑا رہونگا۔ اس پر بہت سے پی ٹی آئی اکاؤنٹس اسکو خراج تحسین بھی پیش کر رہے ہیں۔ مجال ہے جو کسی نے اسکو شرم دلانے کی کوشش کی ہو۔
اب آپ کہیں گے کہ اگر جمشید دستی اتنا بڑا فراڈیا ہے تو عمران خان نے اسکو کیوں چنا؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جمشید دستی فراڈیا ہونے کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ کا ماہر اور اعلی درجے کا ڈرامے باز بھی ہے۔ نیز اس نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ پوری قیمت دے کر خریدا تھا۔ پیسہ، گالم گلوچ اور ڈراما یہ تینوں چیزیں عمران خان کو ہر وقت چاہیے ہوتی ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں