۔ آخرکار پانچ سال بعد برطانیہ نے بھی پی آئی اے پر سے پابندیاں ختم کر دیں، جس کے بعد اب پی آئی اے پاکستان سے براہ راست لندن پرواز کر سکے گی۔ اس سے قبل یورپی یونین بھی پی آئی اے پر عائد پابندیاں ختم کر چکی ہے۔
پی آئی اے پر یہ پابندیاں سال 2020ء میں عمران خان کی حکومت کے دوران اس وقت لگیں، جب پی آئی اے کا ایک طیارہ کراچی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پی آئی اے کے اکثر پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ ان کی یہ تقریر ایک دھماکہ خیز انکشاف بن گئی، جس کے فوراً بعد یورپی یونین اور برطانیہ نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے غلام سرور خان سے جواب طلبی کے بجائے ان کا دفاع کیا اور کہا کہ غلام سرور خان نے بالکل درست بات کی ہے، ہم لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ یوں عمران خان کے بیان نے غلام سرور خان کے دعوے کی تصدیق کر دی۔
عمران نیازی کے دور یوتھیا میں وزیر ہوابازی غلام سرور خان کا #PIA کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں اور لائسنسوں کے بارے میں بیان: کرپٹ اور کمیشن خور عمران نیازی نے جون 2020 میں یہ بیان اپنے برطانوی #ATM رچرڈ برانسن کی ائیر لائن ورجن اٹلانٹک کو PIA کا بزنس دینے کیلئے غلام سرور خان سے 1/2 pic.twitter.com/rMflC4Io73
— RRS (@RanaRiazSaeed) January 11, 2025
اس اقدام پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اگر واقعی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں تھیں تو فلائٹس آپریشن معطل کر کے پہلے پائلٹس کے لائسنس چیک کیے جاتے۔ جن کے لائسنس درست نکلتے، انہیں پرواز کی اجازت دی جاتی۔ لیکن اس کے بجائے ایک عوامی بیان کے ذریعے پی آئی اے پر عالمی پابندیاں لگوا دی گئیں، جس سے پاکستان کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی۔ اگر آپریشن بند نہیں کیے گئے تو پھر ان مسافروں کی جانیں قیمتی نہیں تھیں؟
ان پابندیوں کے باعث پی آئی اے اور پاکستان کو مجموعی طور پر پانچ سال میں تقریباً 250 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پی ٹی آئی جو پہلے ہی بدحالی کا شکار تھی، مزید بحران میں چلی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں پی آئی اے کے کسی بھی پائلٹ کا لائسنس جعلی ثابت نہیں ہوا۔ اس کے باوجود نہ غلام سرور خان سے کوئی بازپرس کی گئی، نہ ہی حکومت نے اس بڑے بلنڈر پر کبھی عوام سے معافی مانگی۔
کچھ رپورٹس کے مطابق عمران خان نے غلام سرور خان سے یہ بیان جان بوجھ کر دلوایا تھا تاکہ اپنے برطانوی 'اے ٹی ایم' رچرڈ برانسن کی ائیر لائن ورجن اٹلانٹک کو پی آئی اے کے روٹس اور بزنس دے سکے۔ یوں پی آئی اے پر بین لگنے کے چند ماہ بعد اسی روٹ پر ورجن اٹلانٹک نے 10 دسمبر 2020 کو اپنی افتتاحی پرواز مانچسٹر ایئرپورٹ سے چلائی۔ کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے پر پابندی کے دوران اس ائر لائن نے اس روٹ سے اربوں کمائے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں