نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

پی آئی اے پر پابندی ختم

۔ آخرکار پانچ سال بعد برطانیہ نے بھی پی آئی اے پر سے پابندیاں ختم کر دیں، جس کے بعد اب پی آئی اے پاکستان سے براہ راست لندن پرواز کر سکے گی۔ اس سے قبل یورپی یونین بھی پی آئی اے پر عائد پابندیاں ختم کر چکی ہے۔

پی آئی اے پر یہ پابندیاں سال 2020ء میں عمران خان کی حکومت کے دوران اس وقت لگیں، جب پی آئی اے کا ایک طیارہ کراچی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد اس وقت کے وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پی آئی اے کے اکثر پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں۔ ان کی یہ تقریر ایک دھماکہ خیز انکشاف بن گئی، جس کے فوراً بعد یورپی یونین اور برطانیہ نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے غلام سرور خان سے جواب طلبی کے بجائے ان کا دفاع کیا اور کہا کہ غلام سرور خان نے بالکل درست بات کی ہے، ہم لوگوں کی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ یوں عمران خان کے بیان نے غلام سرور خان کے دعوے کی تصدیق کر دی۔

اس اقدام پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اگر واقعی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں تھیں تو فلائٹس آپریشن معطل کر کے پہلے پائلٹس کے لائسنس چیک کیے جاتے۔ جن کے لائسنس درست نکلتے، انہیں پرواز کی اجازت دی جاتی۔ لیکن اس کے بجائے ایک عوامی بیان کے ذریعے پی آئی اے پر عالمی پابندیاں لگوا دی گئیں، جس سے پاکستان کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی۔ اگر آپریشن بند نہیں کیے گئے تو پھر ان مسافروں کی جانیں قیمتی نہیں تھیں؟

ان پابندیوں کے باعث پی آئی اے اور پاکستان کو مجموعی طور پر پانچ سال میں تقریباً 250 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پی ٹی آئی جو پہلے ہی بدحالی کا شکار تھی، مزید بحران میں چلی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں پی آئی اے کے کسی بھی پائلٹ کا لائسنس جعلی ثابت نہیں ہوا۔ اس کے باوجود نہ غلام سرور خان سے کوئی بازپرس کی گئی، نہ ہی حکومت نے اس بڑے بلنڈر پر کبھی عوام سے معافی مانگی۔

کچھ رپورٹس کے مطابق عمران خان نے غلام سرور خان سے یہ بیان جان بوجھ کر دلوایا تھا تاکہ اپنے برطانوی 'اے ٹی ایم'  رچرڈ برانسن کی ائیر لائن ورجن اٹلانٹک کو پی آئی اے کے روٹس اور بزنس دے سکے۔ یوں پی آئی اے پر بین لگنے کے چند ماہ بعد اسی روٹ پر ورجن اٹلانٹک نے 10 دسمبر 2020 کو اپنی افتتاحی پرواز مانچسٹر ایئرپورٹ سے چلائی۔ کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے پر پابندی کے دوران اس ائر لائن نے اس روٹ سے اربوں کمائے ہیں۔ 

پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد بننے والی نئی حکومت نے یورپی یونین سے درخواست کی کہ آپ اپنا آڈیٹر مقرر کریں اور وہ خود آکر دیکھے ہمارے سیفٹی سٹینڈرز۔ یوں دو سال کی کوششوں کے بعد پہلے یورپی یونین اور اب برطانیہ نے پی آئی اے پر سے پابندیاں ختم کردیں۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...