۔ شیریں مزاری کا والد اور ایمان مزاری کا دادا سردار عاشق محمود خان مزاری، راجن پور کا بڑا زمیندار تھا۔ بھٹو کے دور میں جب بڑے بڑے زمینداروں کی زمینیں غریب مزارعوں اور ہاریوں میں تقسیم کی گئیں تو عاشق مزاری کی زمین کا ایک بڑا حصہ بھی ہاریوں میں بانٹ دیا گیا۔ وہ تقریبا 40 ہزار کنال تھا۔ غریب ہاریوں نے اس پر کام بھی شروع کر دیا تھا۔
عاشق مزاری کا بے پناہ اثر و رسوخ تھا۔ چنانچہ محکمہ مال کے پٹواری اور تحصیل دار ریکارڈ لے کر عاشق مزاری کے ڈیرے پر پہنچے اور وہیں جعلی ریکارڈ تیار کر لیا گیا۔ اس پر ڈپٹی کمشنر کی جعلی مہریں بھی ثبت کی گئیں اور اصل ریکارڈ کا صندوق سردار کے وفادار پٹواری کے گھر رکھوا دیا گیا۔
بھٹو حکومت نے اس زمانے میں ایسے واقعات کی نگرانی کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے جو پولیس کے ساتھ مل کر چھاپے مارتے تھے۔ خوفزدہ پٹواری نے اس معاملے میں نائب قاصد کو اعتماد میں لیا اور اصل ریکارڈ کا صندوق اس کے پاس رکھوا دیا۔ بعدازاں عاشق مزاری نے جعلی کمپنیاں بنا کر وہ 40 ہزار کنال زمین ان کے نام منتقل کر دی۔
مزارعوں اور ہاریوں کو مار بھگایا گیا۔ انہی میں سے کسی نے شکایت کردی۔ معاملہ سرکار تک پہنچ گیا اور عاشق مزاری کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا۔ ان کی بنائی گئی کمپنیاں جعلی ثابت ہوئیں۔ یہ مقدمہ تقریباً 50 سال تک چلتا رہا۔ عاشق مزاری کا مؤقف تھا کہ اگر محکمہ مال والے سچے ہیں تو ریکارڈ لے آئیں، مگر ریکارڈ غائب تھا۔ اس ساری جعل سازی میں شیریں مزاری اور اسکا بھائی ولی مزاری پیش پیش تھے۔
عاشق مزاری کے انتقال کے بعد زمین شیریں مزاری اور بھائی ولی مزاری کو منتقل ہو گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی مالیت اربوں کھربوں روپے ہو گئی۔ وہ زمین کے ٹکڑے بیچتے رہے۔ لیکن کیس ختم نہیں ہوا تھا۔ اس دوران شیریں مزاری نے ایک اور چال چلی۔ نادرا کے ریکارڈ میں اسکی تاریخ پیدائش 6 جولائی 1951 لیکن اس نے کچھ دیگر ریکارڈز میں اپنی تاریخ پیدائش 26 اپریل 1966 کروائی یہی گوگل پر بھی نظر آتی ہے۔ اس کا مقصد عدالت میں یہ ظاہر کرنا تھا کہ میں تو اس وقت صرف پانچ سال کی تھی لہذا میرا کوئی قصور نہیں۔ لیکن حقیقت میں ان کی عمر اُس وقت 20 سال تھی اور وہ اس پورے عمل میں شامل رہیں۔
کیس چلتا رہا اور اس دوران وہ پٹواری اور نائب قاصد بھی انتقال کر گئے جن کے پاس اصل ریکارڈ کا صندوق تھا۔ 2008 میں شیریں مزاری سیاست میں آئیں اور 2018 میں جب پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو عمران خان کی ہدایت پر بیرسٹر شہزاد اکبر نے مزاری خاندان کے خلاف یہ کیس داخل دفتر کر دیا۔ اسی وجہ سے نظریاتی اختلافات کے باوجود شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری بھی پی ٹی آئی کی حمایت کرنے لگیں۔
کچھ عرصہ بعد انکی بدقسمتی سے ایک ایماندار افسر رائے منظور تعینات ہوا۔ عمران خان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اسے بلوا کر خصوصی طور پر ہدایت دی کہ اس کیس کو نہ چھیڑا جائے۔ رائے منظور چونک گیا اور دفتر جا کر الماری سے وہی فائل نکال لی اور تفتیش شروع کر دی۔ یہاں تک کہ وہ اصل ریکارڈ والے صندوق تک بھی پہنچ گیا۔
رائے منظور نے مزاری خاندان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ جب یہ بات عمران خان تک پہنچی، تو اس نے عثمان بزدار کو دباؤ ڈالنے کو کہا۔ رائے منظور نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ آپ میرا تبادلہ کر دیں، لیکن میں ایف آئی آر ضرور درج کراؤں گا۔ تبادلے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طریقے سے ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب بھی ہو گیا۔
یہ کیس عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی آگے نہیں بڑھ سکا، کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی ایمان مزاری اور شیریں مزاری کے ہمدرد موجود ہیں۔ اس حوالے سے جب شیریں مزاری سے پوچھا جاتا ہے کہ ہاریوں کی 40 ہزار کنال زمین کہاں گئی، تو وہ کہتی ہیں: "حکومت ڈھونڈ کر دکھا دے زمین کہاں ہے؟"
کیونکہ وہ ساری زمین یہ بیچ باچ کر کھا چکے ہیں اور اسی پر ان کے اللے تللے چل رہے ہیں۔ وہ ہزارں غریب ہاری اور کسان رل گئے اور بعد میں انکا کوئی پتہ نہیں چلا۔ غربیوں کی زمینیں کھانے والی یہ ماں بیٹیاں پاکستان میں خود کو انسانی حقوق کی چیمپئن کہتی ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں