نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

اٹھارویں آئینی ترمیم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام

اٹھارویں آئینی ترمیم کا مقصد یہ تھا صوبوں کا احساس محرومی دور کرنا اور پاکستان کو مضبوط کرنا۔ اس مقصد کے لیے فنڈز کا اکثر حصہ اور وسیع پیمانے پر اختیارات صوبوں کو دئیے گئے۔ خیال یہ تھا کہ صوبے فنڈز نچلی سطح پر متنقل کرینگے۔ اپنے مسائل زیادہ اچھے سے خود نمٹائنگے اور انکا احساس محرومی ختم ہوگا۔ وفاق سے شکایات کم ہونگی اور پاکستان مضبوط ہوگا۔ 

لیکن ہوا اس کے بلکل برعکس۔ صوبوں نے فنڈز اور اختیارات تو لیے لیے لیکن ذمہ داری نہیں لی۔ وفاق کو کنگال کر کے بھی فنڈز عوام تک نہیں پہنچنے دئیے۔ محرمیوں کے لیے بدستور وفاق کو ذمہ دار ٹہرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سونے پہ سہاگہ جو  جو اضافی اختیارات ملے انکی مدد سے وفاق کو بلیک میل کرنا بھی شروع کردیا۔ نتیجے میں پہلے صوبوں میں صرف احساس محرومی تھا اب باقاعدہ علیحدگی کی باتیں ہونے لگیں۔ 

اس کی ایک مثال صوبہ خیبرپختونخواہ ہے۔ اس صوبے کو اتنا بجٹ دیا جاتا ہے کہ اسکا وزیراعلی خود کہتا ہے کہ ہمارے پاس ڈیڑھ سو ارب روپے سرپلس بجٹ ہے یعنی ضرورت سے ڈیڑھ سو ارب روپے زیادہ۔ لیکن اس کے باؤجود وہ صوبے میں کسی ایک چیز کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ نہ سڑکیں بنیں، نہ پل، نہ یونیورسٹیاں اور نہ اسپتال۔ 

خیبرپختونخوا میں قدرتی آفات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کئی صوبائی ادارے بنا کر دئیے گئے جن میں ہزاروں اہلکار ہیں اور اربوں روپے کا بجٹ۔ لیکن جب آفت آتی ہے تو اربوں کھربوں روپے کا بجٹ رکھنے والے ان اداروں کے پاس لوگوں کو پانی سے نکالنے کے لیے رسی تک نہیں ہوتی۔ مشہور ہے کہ ایسے "غوطہ خور" بھرتی کیے گئے ہیں جن کو تیرنا تک نہیں آتا۔ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ 

صوبوں کو اجازت دی گئی خود بجلی بنانے کی۔ مطلوبہ فنڈز بھی موجود ہیں۔لیکن تیرہ سال میں ایک میگاواٹ بجلی نہیں بنا سکے۔ آج بھی دس سے بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ بجلی چوروں سے ریکوری بھی نہیں کرسکے نہ ہی بجلی چوری کو کم کر سکے تاکہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو۔ بلکہ پی ٹی آئی کے وزیراعلی نے یہ بھی کہا کہ بجلی چوری کرنا ہمارا حق ہے۔ 

خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں امن و آمان کا قیام بھی صوبائی ذمہ داری قرار پائی۔ اس کے لیے خیبرپختونخوا کو اضافی 600 ارب روپے بھی دئیے گئے۔ فوج نے بڑے بڑے آپریشنز کر کے علاقے بھی دہشتگردوں سے خالی کر کے دئیے۔ لیکن صوبائی حکومت نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کوئی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ ان 600 ارب روپے کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ حتی کہ دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے سی ٹی ڈی بھی نہیں بنائی۔ جو 500 اہلکاروں پر مشتمل فورس ان کو تیرہ سال پہلے ملی تھی آج بھی وہی ہے۔ 

البتہ ان کو جو اضافی اختیارات ملے انکی مدد سے وفاق جو مدد کرنا چاہتا ہے اس میں بھی رکاؤٹیں ڈال رہے ہیں۔ مثلاً دہشتگردی کے خلاف آپریشن میں رکاؤٹیں ڈالنا، افغانیوں کے انخلاء میں رکاؤٹیں ڈالنا اور منرلز کی ایکسپلوریشن میں رکاؤٹیں ڈالنا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبہ تیرہ سال میں تباہ و برباد ہوگیا اور وفاق بھی کمزور ہورہا ہے۔ اٹھاوریں آئینی ترمیم بہت بڑی غلطی تھی۔ اسکو درست نہ کیا گیا تو یہ پاکستان کو لے ڈوبے گا۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...