اٹھارویں آئینی ترمیم کا مقصد یہ تھا صوبوں کا احساس محرومی دور کرنا اور پاکستان کو مضبوط کرنا۔ اس مقصد کے لیے فنڈز کا اکثر حصہ اور وسیع پیمانے پر اختیارات صوبوں کو دئیے گئے۔ خیال یہ تھا کہ صوبے فنڈز نچلی سطح پر متنقل کرینگے۔ اپنے مسائل زیادہ اچھے سے خود نمٹائنگے اور انکا احساس محرومی ختم ہوگا۔ وفاق سے شکایات کم ہونگی اور پاکستان مضبوط ہوگا۔
لیکن ہوا اس کے بلکل برعکس۔ صوبوں نے فنڈز اور اختیارات تو لیے لیے لیکن ذمہ داری نہیں لی۔ وفاق کو کنگال کر کے بھی فنڈز عوام تک نہیں پہنچنے دئیے۔ محرمیوں کے لیے بدستور وفاق کو ذمہ دار ٹہرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سونے پہ سہاگہ جو جو اضافی اختیارات ملے انکی مدد سے وفاق کو بلیک میل کرنا بھی شروع کردیا۔ نتیجے میں پہلے صوبوں میں صرف احساس محرومی تھا اب باقاعدہ علیحدگی کی باتیں ہونے لگیں۔
اس کی ایک مثال صوبہ خیبرپختونخواہ ہے۔ اس صوبے کو اتنا بجٹ دیا جاتا ہے کہ اسکا وزیراعلی خود کہتا ہے کہ ہمارے پاس ڈیڑھ سو ارب روپے سرپلس بجٹ ہے یعنی ضرورت سے ڈیڑھ سو ارب روپے زیادہ۔ لیکن اس کے باؤجود وہ صوبے میں کسی ایک چیز کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ نہ سڑکیں بنیں، نہ پل، نہ یونیورسٹیاں اور نہ اسپتال۔
خیبرپختونخوا میں قدرتی آفات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کئی صوبائی ادارے بنا کر دئیے گئے جن میں ہزاروں اہلکار ہیں اور اربوں روپے کا بجٹ۔ لیکن جب آفت آتی ہے تو اربوں کھربوں روپے کا بجٹ رکھنے والے ان اداروں کے پاس لوگوں کو پانی سے نکالنے کے لیے رسی تک نہیں ہوتی۔ مشہور ہے کہ ایسے "غوطہ خور" بھرتی کیے گئے ہیں جن کو تیرنا تک نہیں آتا۔ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔
صوبوں کو اجازت دی گئی خود بجلی بنانے کی۔ مطلوبہ فنڈز بھی موجود ہیں۔لیکن تیرہ سال میں ایک میگاواٹ بجلی نہیں بنا سکے۔ آج بھی دس سے بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ بجلی چوروں سے ریکوری بھی نہیں کرسکے نہ ہی بجلی چوری کو کم کر سکے تاکہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو۔ بلکہ پی ٹی آئی کے وزیراعلی نے یہ بھی کہا کہ بجلی چوری کرنا ہمارا حق ہے۔
خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ بدامنی ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم میں امن و آمان کا قیام بھی صوبائی ذمہ داری قرار پائی۔ اس کے لیے خیبرپختونخوا کو اضافی 600 ارب روپے بھی دئیے گئے۔ فوج نے بڑے بڑے آپریشنز کر کے علاقے بھی دہشتگردوں سے خالی کر کے دئیے۔ لیکن صوبائی حکومت نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کوئی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ ان 600 ارب روپے کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ حتی کہ دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے سی ٹی ڈی بھی نہیں بنائی۔ جو 500 اہلکاروں پر مشتمل فورس ان کو تیرہ سال پہلے ملی تھی آج بھی وہی ہے۔
البتہ ان کو جو اضافی اختیارات ملے انکی مدد سے وفاق جو مدد کرنا چاہتا ہے اس میں بھی رکاؤٹیں ڈال رہے ہیں۔ مثلاً دہشتگردی کے خلاف آپریشن میں رکاؤٹیں ڈالنا، افغانیوں کے انخلاء میں رکاؤٹیں ڈالنا اور منرلز کی ایکسپلوریشن میں رکاؤٹیں ڈالنا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صوبہ تیرہ سال میں تباہ و برباد ہوگیا اور وفاق بھی کمزور ہورہا ہے۔ اٹھاوریں آئینی ترمیم بہت بڑی غلطی تھی۔ اسکو درست نہ کیا گیا تو یہ پاکستان کو لے ڈوبے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں