نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

علیمہ خان کی سلائی مشینوں کی کہانی

 عمران خان اور علیمہ خان کی والدہ کینسر میں مبتلا ہوکر وفات پا گئیں۔ عمران خان نے کہا کہ میرے پاس اور میری بہنوں کے پاس والدہ کے علاج کے پیسے تک نہیں تھے۔ کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی اور کی والدہ اس طرح کینسر سے مرے، لہٰذا میں کینسر کا ایسا اسپتال بناؤں گا جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہو سکے۔

چندہ جمع کرنا شروع کیا تو کچھ عرصہ بعد ہی عمران خان اور اس کی تمام بہنوں نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی بڑی جائیدادیں خرید لیں۔ عمران خان نے بنی گالہ خریدا، جس کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہ جمائما کا تحفہ تھا، لیکن جمائما نے ایک انٹرویو میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنے پیسوں سے خریدا تھا۔ یاد رہے کہ ریٹائرمنٹ کے قریب آنے تک عمران خان کے پاس اپنی والدہ کے علاج کے پیسے نہیں تھے، لیکن کرکٹ سے ریٹائرڈ ہوکر اربوں کی جائیداد خرید لی۔ خیال رہے کہ صرف بنی گالہ جائیداد کی موجودہ قیمت تقریباً 30 ارب روپے ہے۔

علیمہ خان بھی پیچھے نہ رہیں۔ انہوں نے دبئی میں 6 اور امریکہ میں 2 جائیدادیں خریدیں، جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ ان تمام جائیدادوں کو انہوں نے چھپایا اور کہیں ظاہر نہیں ہونے دیا۔ 2008ء میں انکشاف ہوا تو علیمہ خان کو اعتراف کرنا پڑا۔ انہوں نے جواز پیش کیا کہ دراصل میں نے سلائی مشینیں خریدیں، ان پر کچھ لڑکیاں بٹھائیں اور ان کی سلائی سے اتنی کمائی ہوگئی کہ دبئی اور امریکہ میں جائیدادیں خرید لیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اب وہ سلائی مشینیں اور لڑکیاں کہاں ہیں تو جواب دیا کہ بس پیسے کما کر میں نے وہ کاروبار بند کر دیا۔ پوچھا گیا کہ اس کا کوئی ریکارڈ تو ہوگا، تو موصوفہ نے معصومیت سے کہا کہ جی، ریکارڈ تو نہیں رکھا۔

جب معاملہ زیادہ بڑھا تو علیمہ خان نے عمران خان کے دورِ حکومت میں اربوں روپے مالیت کی ان جائیدادوں پر ایمنسٹی لے لی۔ ان ہیرا پھیریوں پر سپریم کورٹ، علیمہ خان پر 3 کروڑ روپے جرمانہ بھی کر چکی ہے۔ یاد رہے کہ ان جائدادوں کے علاوہ بھی انکی بیرون ملک جائدادیں موجود ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ اس نے انکو بھی چھپایا تھا۔ 

بہرحال، علیمہ خان، عمران خان اور ان کی بہنیں، جن کے پاس والدہ کے علاج کے پیسے نہیں تھے جب عمران خان اپنی کرکٹ کی پیک پر تھا اور کاؤنٹی بھی کھیل رہا تھا، لیکن ریٹائرڈ ہوکر شوکت خانم اسپتال کا چندہ جمع کرنے کے بعد سب کے سب ارب پتی بن گئے۔ اور آج تک کوئی یہ بتانے پر تیار نہیں کہ یکایک، بغیر کوئی کاروبار کیے ان بھائی بہنوں کے پاس یہ اربوں روپے کہاں سے آئے۔ جیسے عمران خان کی دوسری بہن عظمیٰ خان نے 13 ہزار کنال زمین خریدی، جس کی مالیت تقریباً 60 ارب روپے ہے، لیکن کوئی حساب نہیں کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ ویسے شوکت خانم اسپتال کا سالانہ بجٹ 35 ارب روپے ہے یعنی صوبہ بلوچستان کے کل صحت کے بجٹ کا آدھا۔ 

عمران خان کی یہ بہنیں پچاس پچاس لاکھ کے چشمے پہن کر، روزانہ جوتے اتار کر زمین پر بیٹھ کر ایک تصویر بنواتی ہیں اور اعلان کرتی ہیں کہ ہم اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کرپشن کے خلاف لڑ رہی ہیں، قوم ہمارا ساتھ دے۔



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...