۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟
کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟
جواب ہے نہیں۔
کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟
جواب ہے نہیں۔
ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔
پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟
جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔
پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔
جواب ہے نہیں۔
بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حفاظتی پشتوں کے لیے لیا گیا اربوں روپے کھا گیا جسکا سکینڈل ابھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
پھر کیا آپشن بچتا ہے؟
صرف یہی ہے سیلاب آئے تو قریبی آبادیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے سیلاب گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ فلحال حکومت یہی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن ہو تو بتائیں؟ اس وقت صرف راوی کنارے پندرہ بیس سوسائیٹیاں نہیں ڈوبی ہیں بلکہ پورے پنجاب میں سینکڑوں دیہات بھی ڈوبے ہیں۔ وہ بھی جو دریاؤں کے کنارے سے بہت دور واقع ہیں۔
اب یا تو ہر سال یہی کرنا پڑے گا یا پھر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر باقی آپشنز پر کام کیا جائے اور ہر سال کی تباہی کا راستہ روکا جائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں