نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کا دعوی

 پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔  چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔  آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔  افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...

جسٹس اطہر من اللہ کے بارے میں

۔ جسٹس اطہر من اللہ جج بننے سے پہلے اپنے باپ کی سفارش پر سول سروس میں بطور کسٹم آفیسر گئے اور جاتی ہی کرپشن اور رشوت خوری پر جبری ریٹائرڈ کیے گئے۔ وہاں سے اپنے سسر کی سفارش پر وکیل بنے۔ افتخار چوہدری کی تحریک میں اس کے ترجمان بن گئے جس پر اس کو افتخار چوہدری نے جج بنوا دیا۔ 

اسکی بیوی غزالہ اطہر من اللہ یونیورسٹی کالج میں شعبہ قانون کی ڈین ہے۔ مردوں کی طرح بال کاٹنے والی غزالہ وہاں قانون کے بجائے طلباء کو یوتھیا بنانے کے مشن پر رہتی ہیں۔

اطہرمن اللہ کے دونوں بیٹے کینیڈین نیشنل ہیں اور خود اطہر من اللہ کے بارے میں بھی اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ کینیڈا کی نیشنلٹی لے چکا ہے۔ اس کے ایک بیٹے یاسر من اللہ کی اکثر نشے میں دھت کلبوں میں ڈانس کرنے کی وڈیوز آتی رہتی ہیں۔ 

اطہر من اللہ کی بہن ثمر من اللہ فلمیں وغیرہ بناتی ہیں۔ مشہور ہم جنس پرست ہیں۔ اسی نے بدنام زمانہ سوات کی جعلی ویڈیو بنائی تھی۔ 

جسٹس اطہر من اللہ کسی لینڈ لارڈ خاندان سے نہیں ہیں۔ نہ ہی کوئی فیملی بزنس ہے۔ اس کے باؤجود جج بننے کے بعد ارب پتی ہوچکے ہیں۔ کہاں سے آئی یہ دولت کے جواب میں ایک مثال دیتا ہوں۔ موصوف نے چک شہرزاد من ساڑھے 3 ہزار گز کا اسپتال کے لیے مختص پلاٹ اپنے کے لیے کمرشل کروایا اور بیچ کر کروڑوں کمائے۔ اس قسم کے پریکٹیسز سے آئی ہے یہ دولت۔ 

جمہوریت کی بات کریں تو اس کی والدہ جنرل ضیاء کے دور میں مخصوص نشتوں پر ایم این اے بنی تھیں اور ضیاء کے گن گاتی تھیں۔ جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کے خلاف آواز اٹھائی تو جسٹس اطہر من اللہ نے اسکا بائیکاٹ کروا دیا تھا۔ 

انسانی حقوق کی بات کریں تو محض ذاتی عناد پر ایک خاتون وکیل کو 27 دن کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کچہری میں کافی مشہور ہوا تھا۔ جب شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو قتل کیا جاتا ہے تو اس جج کے ماتھے پر کبھی شکن نہیں آئی۔ جب اسلام آباد میں بی ایل اے والے آکر تماشا لگاتے ہیں اور جعفر ایکپریس حملے کی تائید کرتے ہیں تو بھی اس جج کو شرم نہیں آئی۔ اس پر بھی کبھی شرم نہیں آئی ان خواتین کے پلے کارڈ پر موجود "مسنگ پرسنز" حملے کرتے پائے جاتے ہیں۔

کیمرہ دیکھ کر سیاسی تقاریر کرنے کے سخت شوقین ہیں۔ عمران خان کی سہولت کاری کے لیے بدنام ہیں۔ ہمیشہ سے اسکا نشانہ ریاست اور فوج رہی ہے۔ عمران خان کی سپورٹ بھی تب شروع کی جب عمران خان نے ریاست پاکستان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ پاکستان کی تباہی میں ایسے کرپٹ، سیاسی اور ملک دشمن ججوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...