نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کا دعوی

 پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔  چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔  آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔  افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...

پاک فوج کا بونیر میں ریسکیو آپریشن

۔ خیبرپختونخوا کے اضلاع بونیر اور صوابی میں بارشوں سے جو تباہی ہوئی، اس میں عوام کی مدد کے لیے حسبِ معمول سب سے آگے پاک فوج ہی نظر آئی۔

پاک فوج کی 8 یونٹس اس وقت سرچ اور ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔ صرف دو دن میں پاک فوج نے کم و بیش 26 ہزار افراد کو ریسکیو کیا ہے۔ ان آپریشنز میں فوجی ہیلی کاپٹروں کو بھی بڑی تعداد میں استعمال کیا گیا۔

فوج کی انجینئرنگ بٹالینز بھی موقع پر پہنچ چکی ہیں۔ صرف دو دن میں فوجی انجینئرنگ بٹالینز نے تباہ ہونے والے 56 پلوں میں سے 9 اہم ترین پل دوبارہ بنا دیے اور انہیں اس قابل کر دیا کہ ان پر سامانِ رسد متاثرہ لوگوں تک پہنچایا جا سکے، انہیں محفوظ مقامات تک منتقل کیا جا سکے یا زخمی اور بیماروں کو وہاں سے نکال کر اسپتالوں میں پہنچایا جا سکے۔


سامانِ رسد کی بات کریں تو فوج نے اپنا ایک دن کا راشن سیلاب متاثرین میں تقسیم کیا، جو تقریباً 600 ٹن تھا۔



فوج کی میڈیکل یونٹس بھی کام میں مصروف ہیں اور کئی مقامات پر طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ دو دن میں کم و بیش 6000 افراد کو طبی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ جب پاک فوج یہ سب کچھ کر رہی تھی تو "فوج کا کام صرف سرحدوں پر ہے" کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بونیر کے پڑوس میں واقع کوہستان میں جلسہ کر رہی تھی۔ یعنی انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ بونیر پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے اور ان لوگوں کی سیکڑوں لاشیں پڑی ہوئی ہیں جنہوں نے انکو ووٹ دیا تھا۔

یہ حقیقت البتہ بونیر کے عوام نے بہت اچھی طرح دیکھی اور جہاں سے فوجی گزرتے ہیں وہاں لوگ "پاک فوج زندہ باد" کے نعرے لگاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہے جو حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتا ہے: "ہمیں کوئی سیاسی جماعت نہیں چاہیے، وہ تو صرف تصویریں کھنچواتی ہیں۔ ہمیں فوج چاہیے، وہی کام کر رہی ہے۔" جوں ہی اس نے فوج کا نام لیا، حامد میر نے مائیک کھینچ لیا۔ حامد میر نے یہ ویڈیو اپنے پروگرام میں بھی شامل نہیں کی، جس پر سوشل میڈیا پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...