نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کا دعوی

 پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔  چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔  آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔  افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...

باجوڑ میں ٹی ٹی پی کی ہٹ دھرمی اور دھوکہ

 ۔ ٹی ٹی پی کے تمام خارجیوں کو ایک مشترکہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ تمہارے سوا باقی تمام مرتد ہیں، لہٰذا ان سے کیے گئے وعدے یا عہد و پیمان کی پابندی شرعاً درست نہیں۔ اس فتوے کے تحت یہ جب گھیرے میں آتے ہیں تو فوراً مذاکرات کا نعرہ لگاتے ہیں اور جوں ہی موقع ملتا ہے، عہد یا معاہدہ توڑ دیتے ہیں۔

بیس سال میں ان سے تقریباً 100 بار مذاکرات اور معاہدے ہوئے اور ہر بار انہوں نے توڑے۔ یہ اس حوالے سے اتنے ظالم ہیں کہ سوات میں جب پہلی بار فوج گئی تو انہوں نے مسلمان ہونے کا بہانہ بنا کر نہتے فوجی افسروں کو مذاکرات کے لیے بلوا کر ذبح کر دیا تھا۔ پشاور کے ایک ایس پی کو بھی اسی طرح بلوا کر ذبح کیا تھا۔

باجوڑ میں جب انہوں نے جمع ہو کر اسسٹنٹ کمشنر اور مولانا خانزیب کو شہید کیا تو فوج کو فوراً باجوڑ پہنچنے اور آپریشن کا حکم دیا گیا۔ اس پر پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ وہ خارجیوں کے خلاف آپریشن نہیں ہونے دے گی۔ فوج نے کرفیو لگایا تو پی ٹی آئی نے اسے توڑ دیا۔ عمران خان نے جیل سے پیغام بھیجا کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی ہوئی تو میں گنڈاپور سے استعفیٰ لے لوں گا۔ شاندانہ گلزار نے خارجیوں کے خلاف آپریشن کے لیے جانے والے فوجی جوانوں کو باوردی خارجی قرار دیا۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے فوراً مہم چلائی کہ فوج دراصل باجوڑ میں ماربل کے پتھروں پر قبضہ کرنے آئی ہے۔ یوں ایک منفی فضا پیدا کی گئی، لیکن فوج اس کے باوجود پہنچنا شروع ہو گئی۔

تب پی ٹی آئی نے فوج کو پیشکش کی کہ وہ ٹی ٹی پی سے بات کرے گی۔ فوج نے کہا کوشش کر کے دیکھ لیں۔ باجوڑ میں تمام خارجی ایک جگہ اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ شروع میں خارجیوں نے تاثر دیا کہ وہ جرگے کی بات مان رہے ہیں، لیکن اس دوران انہوں نے کئی اہم جگہوں پر بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں بچھا دیں اور ساتھ ساتھ پوزیشنیں سنبھال لیں۔

یہ سب کرنے کے بعد کل اچانک انہوں نے کہا کہ ہم تو مذاکرات نہیں بلکہ جہاد کرنے آئے ہیں۔ ساتھ ہی جرگے والوں کی بھی سخت بےعزتی کی اور کچھ کو گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی۔ یہ سب دیکھ کر باجوڑ کے سالارزئی قبیلے نے پی ٹی آئی کی مذاکرات پالیسی چھوڑ کر اعلان کیا کہ ہم فوج کے ساتھ ہیں۔ باقی لوگ بھی کافی حد تک ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔

خارجیوں کے حوالے سے آپ رسول اللہ ﷺ کا حکم توڑ کر دیکھیں، آپ کو کبھی فلاح نہیں ملے گی۔ حضور ﷺ کا حکم یہ ہے کہ "ان کو جہاں پاؤ انہیں قتل کرو۔" یہی ان کا واحد حل ہے۔ باجوڑ کے خارجیوں کی بڑی تعداد افغانیوں پر مشتمل ہے۔ پاک فوج نے آپریشن کی تیاری مکمل کر لی ہے اور کسی بھی وقت جنگ شروع ہو جائے گی۔

جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے، اب انہیں دوسرا ٹاسک ملا ہے۔۔ وہ ہے دوران آپریشن پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنا یوں خارجیوں کو سپورٹ کرنا۔ اس میں سولینز کی فوج کے ہاتھوں ہلاکتوں کی خبریں پھیلانا، پرانی اور جعلی تصاویر کا سہارا لینا، یا پھر اگر خارجیوں کے ہاتھوں سولینز کی اموات کا الزام فوج پر ڈالنا شامل ہوگا۔ ریاست دشمنی اور فوج دشمنی میں پی ٹی آئی بھی خارجیوں سے کم نہیں جو پاکستان کے خلاف ہر دھوکے اور جھوٹ کو شرعاً جائز سمجھتی ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...