۔ چھ سال تک لوگ یہ سوال کرتے رہے کہ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی کارکردگی میں ایسی کون سی خامی تھی، جس کی بنیاد پر عمران خان نے محض چھ ماہ بعد اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا؟ پھر اُن کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے خلاف لانگ مارچ کر کے اُسے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔
جب فیلڈ مارشل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی تھے، تو وہ ایک دن عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ اُن کے ساتھ ایک فائل بھی تھی۔ کہتے ہیں کچھ رسمی علیک سلیک کے بعد عمران خان نے پوچھا، "جنرل صاحب! کیسے آنا ہوا؟" اس پر اُس وقت کے جنرل عاصم منیر نے فائل سامنے رکھتے ہوئے کہا، "کچھ معاملات ہیں جنہیں آپ کے علم میں لانا ضروری ہے۔"
عمران خان نے پوچھا، "کیا معاملات ہیں؟"
عاصم منیر نے جواب دیا، "کرپشن کے کچھ کیسز ہیں جن میں آپ کی اہلیہ کا نام آ رہا ہے۔"
اس پر عمران خان نے ناگواری سے کہا، "جنرل صاحب! چھوڑیں، کوئی اور بات کریں۔"
عاصم منیر نے کہا، "میں تو اسی ایجنڈے پر بات کرنے آیا ہوں اور اسی پر بات کرنا چاہتا ہوں۔"
عمران خان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، "چھوڑ دیں، چھوڑ دیں اس بات کو..."
مگر عاصم منیر بضد رہے، جس کے بعد دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی۔
عمران خان نے وہ فائل دیکھنے کی زحمت تک نہ کی جس میں بشریٰ بی بی، فرح گوگی اور عثمان بزدار سے متعلق کرپشن رپورٹس شامل تھیں۔ بلکہ وہ سخت ناراض ہو گئے۔ اس فائل میں تمام تفصیلات درج تھیں، مثلاً یہ کہ لاہور کا ڈی سی لگانے کے لیے بشریٰ بی بی نے پانچ کروڑ روپے ریٹ مقرر کیا تھا، اور وہ بھی صرف چھ ماہ کے لیے۔ اس کے بعد دوبارہ ادائیگی کرنا پڑتی تھی۔ یہی حال ڈی پی اوز اور ریجنل پولیس افسران کی تعیناتیوں کا بھی تھا۔ یاد رہے، پی ٹی آئی کے حامی صحافی ارشاد بھٹی نے بھی اپنے پروگراموں میں اس پر تفصیل سے بات کی ہے کہ بشریٰ بی بی پنجاب میں کس طرح مداخلت کر رہی تھیں۔
جب عاصم منیر اور عمران خان بات کر رہے تھے، اسی دوران عمران خان کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ کال بشریٰ بی بی کی تھی، مگر اُنہیں علم نہیں تھا کہ عمران خان کس کے ساتھ بیٹھے ہیں اور کیا بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے پوچھا، "آپ کہاں ہیں؟"
عمران خان نے جواب دیا، "ڈی جی آئی ایس آئی آئے ہوئے ہیں۔"
بشریٰ بی بی نے پوچھا، "کس موضوع پر بات ہو رہی ہے؟"
عمران خان نے کہا، "میں آ کر بتاتا ہوں۔"
فون بند ہو گیا، اور ملاقات بھی یہیں ختم ہو گئی۔
کچھ دیر بعد بشریٰ بی بی نے دوبارہ کال کی اور پوچھا، "وہ بیٹھے ہیں یا چلے گئے؟"
عمران خان نے جواب دیا، "چلے گئے۔"
بشریٰ بی بی نے پوچھا، "کیا بات ہوئی؟"
عمران خان نے پوری بات انہیں بتا دی۔
اس کے بعد بشریٰ بی بی نے دو مرتبہ کوشش کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر سے ملاقات ہو جائے یا وہ کسی طرح بنی گالہ آ جائیں۔ مگر عاصم منیر نے ملاقات سے انکار کر دیا، اور یہ سارا معاملہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے نوٹس میں لے آئے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا، "میں ان سے نہیں ملوں گا۔"
جنرل باجوہ نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا کہ "آپ نہ ملیں۔"
بعد ازاں، عمران خان نے جنرل باجوہ پر دباؤ ڈال کر عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹوا دیا، اور وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہو گئے۔
ملاقات کی خواہش عاصم منیر کی نہیں، بلکہ بشریٰ بی بی کی تھی — جیسے تب تھی، ویسے ہی آج بھی ہے۔ تب بھی عاصم منیر نے کسی بھی ملاقات یا بات چیت سے انکار کر دیا تھا، اور آج بھی وہ ان سے کسی قسم کی ملاقات یا رابطے سے انکاری ہیں۔ اس کے بعد پھر بشری بی بی اپنے ایک ٹاؤٹ کے ذریعے ان کے خلاف ماسٹر ٹائلز والا معاملہ بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔
6 سال تک مسلسل عمران خان پر اس حوالے سے تنقید ہوتی رہی تو اب جاکر اس نے نئی سٹوری بنا دی کہ دراصل عاصم منیر بشری بی بی سے ملنا چاہتے تھے لیکن وہ ملاقات نہیں کر رہی تھیں اس لیے یہ سب ہوا۔ ورنہ زلفی بخاری سے پوچھ لیں۔ وہی زلفی بخاری جس کی بشری بی بی کے ساتھ عاشقانہ گفتگو کی اڈیو لیک ہوئی اور جس کو عدالت نے بھی درست تسلیم کیا ہوا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں