نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بشری بی بی کی کرپشن رپورٹ کی تھی

۔ چھ سال تک لوگ یہ سوال کرتے رہے کہ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی کارکردگی میں ایسی کون سی خامی تھی، جس کی بنیاد پر عمران خان نے محض چھ ماہ بعد اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا؟ پھر اُن کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے خلاف لانگ مارچ کر کے اُسے روکنے کی کوشش بھی کی گئی۔

جب فیلڈ مارشل عاصم منیر ڈی جی آئی ایس آئی تھے، تو وہ ایک دن عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ اُن کے ساتھ ایک فائل بھی تھی۔ کہتے ہیں کچھ رسمی علیک سلیک کے بعد عمران خان نے پوچھا، "جنرل صاحب! کیسے آنا ہوا؟" اس پر اُس وقت کے جنرل عاصم منیر نے فائل سامنے رکھتے ہوئے کہا، "کچھ معاملات ہیں جنہیں آپ کے علم میں لانا ضروری ہے۔"

عمران خان نے پوچھا، "کیا معاملات ہیں؟"
عاصم منیر نے جواب دیا، "کرپشن کے کچھ کیسز ہیں جن میں آپ کی اہلیہ کا نام آ رہا ہے۔"
اس پر عمران خان نے ناگواری سے کہا، "جنرل صاحب! چھوڑیں، کوئی اور بات کریں۔"
عاصم منیر نے کہا، "میں تو اسی ایجنڈے پر بات کرنے آیا ہوں اور اسی پر بات کرنا چاہتا ہوں۔"
عمران خان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا، "چھوڑ دیں، چھوڑ دیں اس بات کو..."
مگر عاصم منیر بضد رہے، جس کے بعد دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی۔

عمران خان نے وہ فائل دیکھنے کی زحمت تک نہ کی جس میں بشریٰ بی بی، فرح گوگی اور عثمان بزدار سے متعلق کرپشن رپورٹس شامل تھیں۔ بلکہ وہ سخت ناراض ہو گئے۔ اس فائل میں تمام تفصیلات درج تھیں، مثلاً یہ کہ لاہور کا ڈی سی لگانے کے لیے بشریٰ بی بی نے پانچ کروڑ روپے ریٹ مقرر کیا تھا، اور وہ بھی صرف چھ ماہ کے لیے۔ اس کے بعد دوبارہ ادائیگی کرنا پڑتی تھی۔ یہی حال ڈی پی اوز اور ریجنل پولیس افسران کی تعیناتیوں کا بھی تھا۔ یاد رہے، پی ٹی آئی کے حامی صحافی ارشاد بھٹی نے بھی اپنے پروگراموں میں اس پر تفصیل سے بات کی ہے کہ بشریٰ بی بی پنجاب میں کس طرح مداخلت کر رہی تھیں۔

جب عاصم منیر اور عمران خان بات کر رہے تھے، اسی دوران عمران خان کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ کال بشریٰ بی بی کی تھی، مگر اُنہیں علم نہیں تھا کہ عمران خان کس کے ساتھ بیٹھے ہیں اور کیا بات ہو رہی ہے۔
انہوں نے پوچھا، "آپ کہاں ہیں؟"
عمران خان نے جواب دیا، "ڈی جی آئی ایس آئی آئے ہوئے ہیں۔"
بشریٰ بی بی نے پوچھا، "کس موضوع پر بات ہو رہی ہے؟"
عمران خان نے کہا، "میں آ کر بتاتا ہوں۔"
فون بند ہو گیا، اور ملاقات بھی یہیں ختم ہو گئی۔

کچھ دیر بعد بشریٰ بی بی نے دوبارہ کال کی اور پوچھا، "وہ بیٹھے ہیں یا چلے گئے؟"
عمران خان نے جواب دیا، "چلے گئے۔"
بشریٰ بی بی نے پوچھا، "کیا بات ہوئی؟"
عمران خان نے پوری بات انہیں بتا دی۔

اس کے بعد بشریٰ بی بی نے دو مرتبہ کوشش کی کہ ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر سے ملاقات ہو جائے یا وہ کسی طرح بنی گالہ آ جائیں۔ مگر عاصم منیر نے ملاقات سے انکار کر دیا، اور یہ سارا معاملہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کے نوٹس میں لے آئے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا، "میں ان سے نہیں ملوں گا۔"
جنرل باجوہ نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا کہ "آپ نہ ملیں۔"

بعد ازاں، عمران خان نے جنرل باجوہ پر دباؤ ڈال کر عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹوا دیا، اور وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہو گئے۔

ملاقات کی خواہش عاصم منیر کی نہیں، بلکہ بشریٰ بی بی کی تھی — جیسے تب تھی، ویسے ہی آج بھی ہے۔ تب بھی عاصم منیر نے کسی بھی ملاقات یا بات چیت سے انکار کر دیا تھا، اور آج بھی وہ ان سے کسی قسم کی ملاقات یا رابطے سے انکاری ہیں۔ اس کے بعد پھر بشری بی بی اپنے ایک ٹاؤٹ کے ذریعے ان کے خلاف ماسٹر ٹائلز والا معاملہ بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔ 

6 سال تک مسلسل عمران خان پر اس حوالے سے تنقید ہوتی رہی تو اب جاکر اس نے نئی سٹوری بنا دی کہ دراصل عاصم منیر بشری بی بی سے ملنا چاہتے تھے لیکن وہ ملاقات نہیں کر رہی تھیں اس لیے یہ سب ہوا۔ ورنہ زلفی بخاری سے پوچھ لیں۔ وہی زلفی بخاری جس کی بشری بی بی کے ساتھ عاشقانہ گفتگو کی اڈیو لیک ہوئی اور جس کو عدالت نے بھی درست تسلیم کیا ہوا ہے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عرفان سلیم کو کور کمانڈر کا گھر جلانے کا معاؤضہ مل گیا!

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا، باغی کارکنوں کو عمران خان کے حکم پر رقوم اور عہدوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ لیکن ان کی کوشش تھی کہ اپنے "ریٹ" کچھ مزید بڑھا سکیں۔ اس پر گنڈاپور نے عرفان سلیم کے سرپرست ایم این اے کو فون کیا اور کہا: "اسے سمجھاؤ، تم جانتے ہو کہ یہ اڈیالہ کا فیصلہ ہے۔ اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو سب سے پہلے اسی کو پارٹی سے فارغ کیا جائے گا، اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوگی!" ایم این اے صاحب نے عرفان سلیم سے ملاقات کی۔ تیمور جھگڑا بھی ساتھ تھے۔ عرفان سلیم دھمکی سن کر سہم تو گیا لیکن پھر بھی پوچھ لیا کہ : "بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟" اسے بتایا گیا کہ مرزا آفریدی خود فون کرکے بتائیں گے (یعنی رقم خود طے کر لینا)۔ عرفان سلیم نے دوبارہ اصرار کیا: "عہدہ کیا ملے گا؟" جواب ملا: "تمہیں سپیشل اسسٹنٹ بنا لیں گے۔" اس پر عرفان سلیم نے جواب دیا: "ابھی فوراً سپیشل اسسٹنٹ نہ بنائیں، ورنہ میرے ساتھی کارکن مجھے کھا جائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ ہمارے سامنے اتنے بڑے بڑے ڈائلاگ مارنے کے بعد ایک سپیشل اسسٹنٹ پر بک گئے؟" جب یہ معاملات طے پا گئے تو عمران خان ...

عافیہ صدیقی کی اصل کہانی

عافیہ صدیقی ایک مالدار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور 1990 کی دہائی میں اپنے بھائی کے ہمراہ امریکہ چلی گئیں۔ وہ امریکی شہریت رکھتی تھیں۔ اُنہوں نے دو شادیاں کیں، اور دونوں شادیاں اُن کی اپنی پسند سے تھیں۔ امریکہ کے مطابق وہ القاعدہ کی رکن تھیں اور دورانِ تفتیش خالد شیخ محمد نے اُن کا نام لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد، قید کے دوران انہوں نے مبینہ طور پر امریکی فوجیوں سے بندوق چھین کر اُن پر فائرنگ کی، جس کے باعث اُنہیں سزا سنائی گئی۔ نہ پاکستان نے کبھی یہ کہا کہ ہم نے عافیہ کو گرفتار کیا، اور نہ ہی امریکہ نے کبھی یہ کہا کہ پاکستان نے اُسے ہمارے حوالے کیا۔ عافیہ افغانستان گئی تھیں، جہاں وہ افغان فورسز کے ہاتھ لگیں۔ افغان حکام نے انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے اعتراف کیا ہے، مگر یہ سراسر غلط ہے۔ عافیہ صدیقی بگرام جیل کی "قیدی نمبر 650" نہیں تھیں۔ جن معظم بیگ کے بیان کی بنیاد پر اُنہیں یہ نمبر دیا گیا، وہ خود 2 فروری 2003 کو بگرام سے گوانتانامو بے منتقل ہو چکے تھے۔ اُس وقت عافیہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی میں موجود تھیں۔ وہ...

کوہستان کرپشن سکینڈل

۔ کوہستان کرپشن اسکینڈل بنیادی طور پر ضلع کوہستان میں مختلف ترقیاتی کاموں کے نام پر نکالے گئے سرکاری فنڈز کا ایک میگا کرپشن کیس ہے، جس میں جعلی کمپنیوں کی مدد سے تقریباً 40 ارب روپے کی رقم نکالی گئی۔ یہ رقوم ایسے 'ترقیاتی کاموں' کے لیے نکالی گئیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔ کوہستان میں حالیہ بارشوں میں دوبارہ لوگ ڈوبے ہیں۔ وہاں تو ضروری پل بھی نہیں بنے ہیں۔ یہ بدعنوانی 2019ء سے دسمبر 2024ء تک جاری رہی۔ اس کرپشن اسکینڈل میں اعظم سواتی کا نام سب سے نمایاں ہے، جبکہ اس کا مرکزی ملزم ایک ٹھیکیدار محمد ایوب ہے، جس نے پشاور ہائی کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست بھی دی ہے، یعنی وہ کرپشن تسلیم کر رہا ہے لیکن "کچھ لو کچھ دو" پر معاملہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اعظم سواتی کا 25 کروڑ کا بنگلہ اسی محمد ایوب نے 60 کروڑ روپے میں خریدا۔ بعد ازاں اعظم سواتی نے یہ جعلسازی بھی کی کہ جائیداد کا انتقال 2016ء کی تاریخوں کا دکھایا جائے تاکہ خرید و فروخت پر سوال نہ اٹھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس سکینڈل میں اعظم سواتی کا حصہ 4 ارب روپے کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے ...