سینیٹر مشتاق نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان کے 161 جرنیل ڈالروں میں پنشن لے رہے ہیں جو تقریباً 200 ملین ڈالر رقم بنتی ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان غریب ہے۔
اگر 200 ملین ڈالر کو 161 پر تقسیم کریں تو فی جرنیل سوا ملین ڈالر یا تقریباً 33 کروڑ روپے پنشن بنی۔ یعنی سینیٹر مشتاق نے تکا تو لگایا لیکن زیادہ حساب کتاب ضروری نہیں سمجھا۔ وہ جانتا ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی دعوی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردو تو کوئی بھی تحقیق میں نہیں پڑتا نا زیادہ غور کرتا ہے اور خوب وائرل بھی ہوجاتا ہے۔ خاص کر سینیٹر مشتاق کی طرح آپ مکاری کر کے 150 یا 160 کی جگہ 161 لکھیں تو لوگوں کو لگتا کہ سینیٹر نے خود گنے ہونگے تبھی بلکل صحیح تعداد لکھی ہے۔
سچائی یہ ہے کہ 1959ء تک ڈالروں میں پنشن لینے کا قانون موجود تھا۔ جس کے بعد ختم ہوگیا۔ 1959 یا اس سے پہلے کے سرکاری ملازمین آج بھی ڈالرز میں پنشن لے سکتے ہیں۔ اس وقت 3 ایسے جرنیل زندہ ہیں جنکی عمریں 85 سال سے اوپر ہیں اور اس قانون کے مطابق پنشن لے سکتے ہیں اور 140 بیورکریٹ ایسے زندہ ہیں جو ڈالرز میں پنشن لے رہے ہیں۔ ان سب کی مجموعی پنشن 5 کروڑ روپے بھی نہیں بنتی۔
سینیٹر مشتاق اتنا زیادہ جھوٹ بولنے لگا ہے کہ جماعت اسلامی بھی اس کے جھوٹ کا بوجھ نہیں برداشت کر پارہی اس لیے اسکو جماعت سے فارغ کر دیا۔ اب تو بلکل ہی ذہنی مریض بن گیا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں