پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔ چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔ آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔ افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...
۔ 1998ء سے پہلے جمشید دستی ایم اے اسلامیات تھا۔ اس پر جعلی ڈگریوں کا کیس بنا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ یورنیوسٹیاں اور بورڈ اس کی ڈگریاں جعلی قرار دے چکے تھے۔ پھر بھی سپریم کورٹ نے احتیاطً اس سے صرف یہ سوال کیا کہ قرآن کی پہلی دو صورتیں کون سی ہیں؟ ایم اے اسلامیات جمشید دستی کو نہیں تھا علم کہ قرآن کی پہلی دو صورتیں کون سی ہیں۔ لہذا سپریم کورٹ نے نچلی عدالتوں کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اسکو نااہل قرار دے دیا۔ اس پر اس نے 2002ء میں ڈیرہ غازی خان سے دوبارہ میٹرک کر لیا۔ لیکن وہ میٹرک سرٹیفکیٹ بھی جعلی ثابت ہوا۔ تین سال بعد، انٹرمیڈیٹ کا سرٹیفکیٹ بھی ڈیرہ غازی خان کے تعلیمی بورڈ نے جعلی قرار دیا۔ 2008ء میں، جمشید دستی نے شہادت العالیہ (گریجویشن کے مساوی مذہبی ڈگری) حاصل کی۔ اسی پر الیکشن لڑا لیکن وہ ڈگری بھی چینلج ہوئی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں وہ ایک بھی سوال کا جواب نہیں دے سکے اور ڈگری جعلی قرار پائی۔ اکتوبر 2019 میں بہاولپور یونیورسٹی سے دوبارہ ایف اے بی اے کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ یاد رہے کہ 1998ء میں یہ ایم اے کر چکا تھا۔ جمشید دستی نے ہمت ن...